May 15, 2024

Warning: sprintf(): Too few arguments in /www/wwwroot/common-garden-pests.com/wp-content/themes/chromenews/lib/breadcrumb-trail/inc/breadcrumbs.php on line 253

پولیس نے خیمے اکھاڑ دیئے، مظاہرین کو زبردستی ہٹا کر اردگرد کے علاقے کی ناکہ بندی کر دی

germany- reuters

برلن پولیس نے جمعے کے روز جرمن پارلیمنٹ کے سامنے قائم فلسطینیوں کا حامی کیمپ ہٹانا شروع کر دیا جہاں موجود کارکنان کا مطالبہ تھا کہ فرانسیسی حکومت اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکے اور فلسطینیوں سے یکجہتی کی تحریک کو مجرمانہ قرار دینا بند کرے۔

پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر ناکہ بندی کر دی تاکہ دوسروں کو آنے سے روکا جا سکے۔

یہ کارروائی امریکی یونیورسٹی کے کیمپس میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں اور پیرس کی سائنسز پو یونیورسٹی کی ناکہ بندی کے بعد ہوئی جو غزہ میں فوجی مہم اور اسرائیل کے لیے مغربی حمایت کو مسترد کرنے کے لیے بین الاقوامی مظاہروں کا حصہ ہے۔

‘قبضے کے خلاف قبضہ کریں’ کے نام سے برلن کیمپ کا آغاز 8 اپریل کو ہوا جب اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کرنے کے لیے جرمنی کے خلاف نکاراگوا کے مقدمے کی بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں سماعت شروع ہوئی۔

کیمپ منتظم جارا نصر نے رائٹرز کو بتایا، “ہمارا خیال اِس طرف اور اسرائیل کو غزہ میں جاری نسل کشی کے قابل بنانے میں جرمنی کے ملوث ہونے کی طرف توجہ مبذول کرانا تھا۔”

اسرائیل ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے کہ غزہ میں جاری اس کی جارحیت نسل کشی ہے جس کا مقصد فلسطینی گروپ حماس کو تباہ کرنا ہے۔

نصر اور ایک درجن مظاہرین زمین پر بیٹھے فلسطینیوں کے حق میں نعرے لگا رہے اور گا رہے تھے جب پولیس نے لاؤڈ سپیکر پر انہیں وہاں سے چلے جانے کا کہا۔

برلن کی فری یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم اور جیوش وائس ایسوسی ایشن کے رکن اُدی راز نے کہا، “امریکہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، ہم اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمیں اب رک جانا چاہئے۔”

راز نے فلسطینی پرچم کے رنگوں والی کپاہ (مخصوص یہودی ٹوپی) پہن رکھی تھی اور سوشل میڈیا پر کیمپ ہٹانے کی براہِ راست وڈیو نشریات کے لیے اپنا فون اٹھا رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہودی کارکنان کیمپ میں شامل تھے اور اس ہفتے وہاں شمع کی روشنی میں عیدِ فصح کے عشائیے کا انعقاد کیا تھا۔

پولیس نے کہا کہ کیمپ کے لیے ممانعت کا حکم جس کا اختیار احتجاج کے آغاز میں دیا گیا تھا، اس کی وجہ بعض مظاہرین کی جانب سے بار بار کی گئی خلاف ورزیاں تھیں مثلاً غیر آئینی علامات کا استعمال اور ممنوعہ نعرے۔

پولیس ترجمان انجا ڈیئرشکی نے کہا، “اس مقام پر اجتماعات کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کیونکہ عوام کی حفاظت اور نظم و نسق کافی حد تک خطرے میں ہے۔” نیز انہوں نے کہا کہ لان کو درست حالت میں رکھنے کے لیے مقامی ضوابط کے تحت روزانہ خیموں کو منتقل کرنا پڑتا تھا۔

راز نے کہا، “جرمن حکومت کے لیے (لان کی) گھاس غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے 40,000 سے زیادہ معصوم لوگوں کی زندگیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *